اب یہ خواہش ہے کہ اپنا ہمسفر کوئی نہ ہو
جز شبِ تنہا، شریک رہگزر کوئی نہ ہو

رات کے پچھلے پہر کی خامشی کے خوف کو
اس سے پوچھو شہر بھر میں جس کا گھر کوئی نہ ہو
...
یا چراغ Ú©Ù… نفس Ú©Ùˆ صبØ+ تک جلنا سکھا
یا پھر ایسی شام دے جس Ú©ÛŒ سØ+ر کوئی نہ ہو

جل رہے ہیں بام و در اور مطمئن بیٹھا ہوں میں
گھر کی بربادی سے اتنا بے خبر کوئی نہ ہو

جستجو فن کی، متاعِ فن بچانے کا خیال
پتھروں کے شہر میں بھی شیشہ گر کوئی نہ ہو

درد اتنا ہو کہ بول اٹھے سکوت شہرِ جاں
زخم ایسا دے کہ جس کا چارہ گر کوئی نہ ہو

صØ+بتوں Ú©Û’ خواب دیکھوں رات بھر Ù…Ø+سن مگر
صبØ+ دم آنکھیں کھلیں تو بام پر کوئی نہ ہو

Ù…Ø+سن نقوی